مجھ سے مل کر بھی اجنبی ہی رہا
ذکرِ فردا میں شرابی ہی رہا
وہ جو میکش تھے پیاسے مرنے لگے
سارا جہان گلابی ہی رہا
آس جب ٹوٹتی نہیں اپنی
جانے کب اس کی آرزو میں رہا
وہی مشک و عنبر کی بات کرو
جامِ جم توڑ کے خوشبو میں رہا
اے خیالوں سے پرے وہم و گماں
کب سے میں محفلِ ساقی میں رہا
آبھی جا! شورشِ دل کے قرار
جانے اب کب سے میں خاکی میں رہا
شعلہِ دہر کے جھلسے ہوئے دل
خواب سے پُر دلِ باغی میں رہا
نیمہِ شب ہے یہ فغاں کیونکر
سحرِ فریبِ دل ہستی میں رہا
یوں معطؔر کی زندگی لوٹیں
خواب سے کب اُٹھے، راضی میں رہا