ایک بے وفا کے نام
میں جسے اپنا ہی سمجھتا تھا
جو میری باتوں پہ سمجھتا تھا
جو تھا خیالوں پہ سوار میرے
جو پاؤں میں تھا بس اک خار میرے
آج باہوں سے میرے جا بھی چکا
کیا ہے وفا مجھے سمجھا بھی چکا
میرے نغموں کا حرف شناس تھا وہ
گل کا آتشیں لباس تھا وہ
میں اسے کھو گیا ماہی کی طرح
وہ مجھ سے بچھڑا ایک راہی کی طرح
وہ ساحلوں پہ گایا کرتا تھا
وہ تو قبروں پہ جایا کرتا تھا
میں اسے کھو کے بہت پچھتایا
پر آنا تھا اسے، نہ وہ آیا
میں منتظر ہوں اس کے آنے کا
آشک آنکھوں میں بھی چھپانے کا