مجھے شعور کے جب جام سے آشنائی ملی
تو اِس چمن کی ہر ایک راہ پہ رسوائی ملی
میں اپنے ساتھ لیے پھرتا ہوں غمدیدہ من
بدلے میں جُرمِ محبت مجھے صحرائی ملی
مجھے نفرت ہے غلاموں کے جامِ جم سے ابھی
آرزو مجھکو تھی لذت کی تو دریائی ملی
کب تھلک شورشِ صحرا لیے پھرتا میں آہ
مجھے سفر کے لیے سازشِ سودائی ملی
اپنے آشیانے کے تنکوں کو بچایا جب کبھی
میرے اپنوں کو کہیں سے دیا سلائی ملی
عجب تھے لوگ جو مجھ سے ملے ستاروں پر
بہت تھے خوش وہ کہ باغی کی راہنمائی ملی
وہ اپنے دھن میں تھا مست، مجھ سے معطر نے کہا
میں دار چڑھ جب گیا اب مجھے خدائی ملی