ابتلاؤں میں، اضطرابوں میں
جانے کھویا ہوں کِن عذابوں میں
اُس کی عادت نہ کوئی مجھ جیسی
اُسے ڈھونڈونگا کِن خرابوں میں
اُس کی دلکش نگاہوں کا ہے نشہ
جانے اور کیا ہے اِن شرابوں میں
خُود فراموش، سدا کا خموش
کب تک ڈھونڈوں اُسے نِقابوں میں
یا کوئی مجھ سے، مجھی کو چھینے
یا کوئی لائے اُسے خوابوں میں
ہوش اب کب ہے؟ تہی دامانی
کہاں چھپتی ہے اب حجابوں میں
تم نے یہ سچ کہا کہ پاگل ہوں
کون چھپتا پھرے سرابوں میں
کیا معطر کو معاف کرنا ہے
یا اُسے پھر رکھوں عذابوں میں