جو قریب تھے اپنی جان سے
وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
جنہیں تھا خیال اپنی زلف کا
وہی لوگ آج بکھر گئے
ہم تو تھے سراپا جمالِ سوز
تھے وہ لوگ بھی کچھ کمالِ سوز
تھے وہ لوگ بھی کچھ آہ بے وفا
دو قدم ہی جا کے ٹھہر گئے
آہ! وہ رقص کر کے کہاں گئے
ہمیں چھوڑ کے وہ جہاں گئے
سدا رہتے تھے اشکبار وہ
خوں پی کے ہمارا، سنور گئے
آئے قبر پہ تھے وہ خاص لوگ
ہمیں دیکھ کے کچھ وہ رو دیئے
کہتے جو تھے ہم سب کو بے وفا
وہ خود خاک میں اب اُتر گئے
تھی وہ شام کتنی عذاب میں
وہ بدنام تھے اضطراب میں
جنہیں ہم نے سمجھا تھا نا خدا
وہ ہمیں چھوڑ کے کدھر گئے
تھے وہ باغیوں میں جو خاص لوگ
وہ جو بلبلوں سے خفا ہوئے
وہ تھے لوگ کتنے آہ! دلنشیں
وہ گئے تو سب معطر گئے