میرے ٹوٹے ہوئے دل کا کوئی سودا تو کرے
میں ہوں بیزارِ محبت، کوئی منع تو کرے
لہو بھی اپنا ہے، آنسو بھی، زندگانی بھی
یہ روز روز کا قصہ کوئی نیا تو کرے
آہ! رسوائی نے پہنچایا سرِ دار ابھی
برسرِ عام ابھی کوئی رسوا تو کرے
عاشقِ باوفا ہوں تیرے تقدس کی قسم
دار سے پھر مجھے کوئی آشنا تو کرے
لوگ کتنے ہیں ستم گر جانم
کاش آکر کوئی جفا تو کرے
میں تو اسکا ہوں، اسکا ہی ہوں میں
شرطِ واحد کوئی ذبح تو کرے