سو تمہیں مجھ سے بہت گلے ہیں
اناؤں کے جو یہ سلسلے ہیں
تھا اعتبار جو مجھ پہ تیرا
کیا اسی گل پہ کانٹے کِھلے ہیں؟
کٹیں گے کب تیرے ہجر کے شب؟
چلے بھی آؤ کہ اکیلے ہیں
وفاؤں کا ہے بھی کوئی موسم؟
جو سرِ بزم پھر آ چلے ہیں
کیا بند ہے اب بھی میکدہ دل؟
سُنا یے میکدے تو کُھلے ہیں
نہ آئیں گے تیری بزم میں جانم
جو اس سمے گھر سے نکلے ہیں
عجیب ہے دل، یہ وسوسے بھی
عجیب دل کے یہ ولولے ہیں
ہیں آتشِ شوق کے سارے قصئے
مگر یہ خوابوں سے نرالے ہیں
ہمارے آہ و فُغاں سے بڑھ کر
کیا قیسِ مجنوں کے یہ نالے ہیں؟
خطیب ہیں پر نہ ناز اس پہ
حسین تر تو تمہارے لِے ہیں
یہ کیا تعویز و سِحر، وظیفے؟
کیا اس سے امتحان ٹلے ہیں؟
نہ ڈر ہے دار و رسن سے ہم کو
کہ اِس کے سایوں میں ہم پلے ہیں
یہ تیر و تلوار، یہ سنگ و بارش
اے جان! اِن کے سایےتلے ہیں
وہی ہے چاک گریبانی اب تک
کہ اب تو ہونٹ تک ہی سلے ہیں
نہ ڈھونڈؤ اپنی گلی میں ہم کو
کہ تیری دہلیز سے ہم چلے ہیں
رقیبوں کو ہو اب یہ سب مبارک
ہم اپنی ہی آہوں سے جلے ہیں
ہیں خواب و وہم و گمان میں سب
جو کچھ بھی تجھ سے ہمیں ملے ہیں
یہ نیمئہِ شب، یہ رتجگے ہیں
یہ اپنے ہی پیار کے صلے ہیں
فضا معطر، جہاں معطر، بہشت ہے کیا؟
یا اب بھی مجھ سے تمہیں گِلے ہیں؟