مجھ سے روٹھے ہیں سب پتھر کے خدا
کیسے جیتے ہیں اب آذر کے خدا
ایک کو خوش رکھوں تو پھر اور خفا
کیسے راضی ہونگے اِدھر کے خدا
میرا خوں پی کے پجاری ہوئے سیر
کیسے خوش رکھوں میں مندر کے خدا
پہلے روٹھتے تو منا لیتا اُنہیں
آج منتے نہیں یہ گھر کے خدا
کسی کا پیٹ تو کسی کی پیٹھ خالی ہے
پیٹ بھرے ہیں اہلِ نظر کے خدا
میں ہوں اس بستی کا عاجز بندہ
کیسے سمجھاؤں میں شہر کے خدا
تمہی سمجھاؤ سب بتوں کو خدا
اِن غلاموں کے شہر میں معطر کے خدا