کوئی رسم بھی نہ نبھا سکا
اپنی لاش تک نہ دفنا سکا
اپنی روشنی سے اماں کہاں
دلِ ناخدا سے گلہ نہیں
جو نہ نصیب میں تھا ملا نہیں
پھر الگ الگ ہی ہیں راستے
نہ کہیں اماں، ہے یہی جہاں
ضبط روشنی کا ستم کروں
سر بلند بغاوت کا علم کروں
اپنی جان سے کیا امان ہو
جبکہ جان میری ہی جان ہو
دلِ ہم نشیں سے ہو دلنشیں کی عطاگری
یہ ردائے ماہ و سال ہے
کیا ہجر ہے اور کیا وصال ہے
تو اے دل! دھڑکنا بھی چھوڑ دے
میرا رخ جہاں سے بھی موڑ دے
پیالے توڑدے، مئے سے جوڑ دے
کاسۂِ لب و رخسارِ یار
کیا عجب میخانے کی آڑ لیں
جامِ جم سے گر بے نیاز ہوں
ہے صد شکر محمود نہ ایاز ہوں
کوئی تخت ہے نہ ہی تاج ہے
پھر بھی کتنے دلوں پہ راج ہے
اے ازل کے شیشہ ساز تُو
میرے دل کا شیشہ تراش تُو
تُو الگ رہا میں جدا رہا
میں گر عبد ہوں تُو خُدا رہا
اے نگاہِ شیشہِ ناز تُو
بے نیاز کر بے نیاز تُو
نیمۂِ شعبان ۲۰۱۶
شب ۲ بجے