دل ہے میخانۂِ جزبات صنم
ہائے بتخانہ، خُرابات صنم
روز تجھ ہی سے آکے ملتا ہوں
کیوں ادھوری ہے ملاقات صنم
میرے نغموں سے نہ اُکتا جانا
دل میں ہے محشرِ نغمات صنم
میں نے جینے کی دعا مانگی نہیں
میرے پاس تھوڑے ہیں لمحات صنم
دُنیا کے آخری کونے میں ہوں
آگے ہے بحرِ ظُلمات صنم
صبح ہوتی ہے جاگ اُٹھتا ہوں
ہائے کتنی غمگیں ہے رات صنم
میں ہوں باغی اور اندازِ بغاوت لیے میں
توڑ جاؤنگا تیرے سب روایات صنم
تیری آنکھوں میں لگا ہے کاجل
پھر بھی اشکوں کا یہ برسات صنم
تم معطر کے دل کے تاجر ہو
پھر بھی اُس سے یہ شکایات، صنم