زندگی کے حاصل یہ لفظ سارے میرے ہیں پیش لفظ زندگی اک ستائے ہوے طائر کی طرح پھڑ پھڑاتی رہی تاریخ کے زنجیروں می...
اپنے اور تیرے بارے میں شہرتوں سے بھی ڈر رہا ہوں میں خواب بھی اس کے دیکھتا ہوں میں رشکِ فرہاد، قیس کا دل ہوں روز لیلٰی سے...
اے جاناں پھر تیری یاد ہے کہ اہلِ جفا کی مانند دلِ ضیف کو پارہ پارہ کرے خوابِ گم گشتہ آشکارا کرے پھر غمِ زیست کا ہنگام ہے...
صبحِ اول اس حسنِ دلنشین کا جلوہ بھی یاد ہے اس وعدہ الست کا تقاضہ بھی یاد ہے آنکھیں بھی یاد ہیں اسکا چہرہ بھی یاد ہے روٹھ...
طوفاں کا نقیب یہ ہے شہر تھوڑا برا برا یہاں فاصلوں سے ملا کرو بے حسوں کا شہر ہے خاموشاں یہاں حق بھی تو نہ کہا کرو ظلم ظلم...
افسوس بہت افسوس ہوتا ہے جب دل یہ روٹھ جاتا ہے احساسِ بے زبانی سے دل جبکہ ٹوٹ جاتا ہے وہ دامن اپنے دلبر کا ہاتھوں سے چھوٹ...