اپنے اور تیرے بارے میں
شہرتوں سے بھی ڈر رہا ہوں میں
خواب بھی اس کے دیکھتا ہوں میں
رشکِ فرہاد، قیس کا دل ہوں
روز لیلٰی سے مل رہا ہوں میں
یہ بھی شاید کوئی فسانہ ہو
خواب بے وجہ بُنتا ہوں میں
اک غمِ عاشقی ناکافی ہے
کن سرابوں میں کھو گیا ہوں میں
اک شبِ وصل کی تمنا ہے
اک شبِ ہجر میں جیا ہوں میں
اتنا خالی میرا قفس ہے کیوں
دلِ خالی سے پوچھتا ہوں میں
تم میری زندگی کا حاصل ہو
گر یہ کہوں تو پھر جھوٹا ہوں میں
ان فسانوں سے مجھے کیا لینا
جان دے کر بھی تو زندہ ہوں میں
اک معطر ہی نہیں جس سے لڑوں
سارے جہان سے لڑتا ہوں میں