مجھے کچھ جاننے کی ضد تھی تم کو
تم ہی پاگل بنی تھیں جانے کیوں کر
میری ہر اک سزا منظور کرتیں
مجھے خوابوں پہ تم مجبور کرتیں
میں شاعر، اجنبی در در کا سائل
مجھے وحشت سی تھی اپنے سفر سے
میری منزل، میرا ہر اک قدم بس
خود سے خود تک یہ فاصلہ نہ گھٹا
تم آئیں تو میرے لفظوں کو معنی سے غرض کیا
تمہیں اصرار تھا میں خود سے نکلوں
ملوں تم سے کبھی محور میں تیرے
انا کو راس تم آئیں نہ کیوں کر
نجانے تم میں کیا جادو تھا جانم
اب برسوں بعد بھی جب دیکھتا ہوں
وہاں سے ٹھیس سی اٹھتی ہے جسمیں
کبھی مسکن تھا تیرا، مستقر تھا
کبھی اس دل کے تہہ خانے میں جا کر
میں اکثر خود سے ہی یہ پوچھتا ہوں
تمہیں کھویا ہے یا میں تم سے کھویا
نہ سوئیں تم، نہ میں ہی چھین سے سویا
ابھی بے خواب راتوں کے ثمر یہ
میرے الفاظ کے کچھ بے ربط آواز ہی ہیں
دمِ رخصت ملا نہ تم سے میں کیوں؟
یہ اکثر مجھ سے کیوں تم پوچھتے ہو؟
میرے بارے میں کیوں تم سوچتی ہو؟
مسافر، اجنبی، صحرا کا باسی
سمجھ آئے تو کیسے آخرش دل
مجھے کچھ جاننے کی ضد تھی تم کو
نجانے کیوں مجھے تم جان نہ پائیں؟